hi qasim bhai i used to believe that i have seen abnormal people....but when i saw you.... i realized that you are really different abnormal as compare to normal people.....
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل ، جسے اندیشہ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو یہاں جو سبزہ اگے، وہ ہمیشہ سبز رہے اور ایسا سبز ، کہ جس کی کوٴی مثال نہ ہو گھنی گھٹاٴیں یہاں ایسی بارشیں برسا ٴیں کہ پتھروں سے بھی روٴید گی محال نہ ہو خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو ہرایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال کوٴی ملول نہ ہو، کوٴی خستہ حال نہ ہو خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کےلیے حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل ، جسے اندیشہ زوال نہ ہو
کبھی آپ نے کولہوں کے بیل کے بارے میں سوچا ہے؟ جسے اکثر دور دراز علاقوں میں پانی نکالنے کے لیٗے استعمال کیا جاتا ہے؟ایک بیل کو کسی کنوئیں کے گرد باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ گول گول گھوم کر پانی نکال سکے۔ ایک بیل پورا دن اسی طرح گھومتا رہتا ہے اور پانی کھینچتا رہتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ وہ کیا چیز ہوگی جو اسکو یہ کرنے پر مجبور کرتی ہوگی؟ شائید آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نہ ان بیلوں کہ اوپر کسی انسان کو مقرر کیا جاتا ہے جو انہیں اس کام پر مجبور کریں اور نہ ہی کسی چیز کا لالچ دیا جاتا ہے۔ کولہوں کے بیل یہ کام خود اپنی مرضی اور "انٹرنل موٹویشن " کے تحت کرتے ہیں۔ بس ان کی آنکھوں پر ایک پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ بس! اور یہ بیل پورا دن یہ سمجھ کر گھومتا رہتا ہے کہ اس نے بہت سارا سفر طے کرلیا ہے، بہت سا کام کرلیا ہے۔ حالانکہ وہ پورا دن وہیں ایک جگہ پر گھوم رہا ہوتا ہے شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ آپ نے کولہوں کے بیل کو کبھی دیکھا نہیں۔ کیا آپ دیکھنا چاہے گے؟ ذرا اپنے آس پاس نظر گھمائے۔۔۔ ہم میں سے بہت سوں کے شب وروز شاید ایسے ہی گزر رہے ہونگے۔ ہم پورا دن کسی کولہوں کے ب
ایک لڑکے کو غصہ بہت زیادہ آتا تھا۔ بات بات پر طیش میں آجاتا تھا۔ اس کے باپ نے اس کو بولا کہ اب جب بھی تمہیں غصہ آئے گا اور تم چیخو گے یا کسی کو مارو گے تو اس کے بعد تم نے باہر جا کر فینس میں ہتھوڑی سے کیل ٹھوکنا ہے۔ جیسے ہی لڑکا غصہ کرتا، با ہر جا کر لکڑی کی فینس میں کیل ٹھوکتا۔ پہلے دن اس نے رات کو سونے سے پہلے جب کیل گنے تو پورے پینتیس کیل تھے۔ تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور سمجھ گیا کہ اس کو علاج کی ضرورت تھی۔ اگلے دن پھر اسی طرح تیس کیل تھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کیلوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ کیل ٹھکنے میں جتنی دیر اور جان لگتی تھی لڑکا سوچتا تھا کہ اس سے بہت بہتر تھا کہ وہ غصہ نہ کرتا تو وہ اکثر خود کو روک لیتا۔ پھر اس نے اپنے باپ کو بتایا جس دن ایک بھی کیل ٹھوکنے کی ضرورت نہ پڑی۔ باپ خوش ہوا اور بولا کہ اب سے نئی ڈیو ٹی ہے، جب بھی غصے کو کنٹرول کرو گے تو باہر جا کر پہلے سے لگائے ہوئے ایک کیل کو باہر نکال لو گے۔۔ٹھیک ہے؟۔۔۔ لڑکا مان گیا۔ پھر جب بھی اس کو غصہ آتا اور وہ اپنا غصہ پی جاتا تو باہر جا کر فینس میں سے اپنے پرانے ٹھونکے ہوئے کیلوں میں سے ایک نکال لیتا۔ جس دن سارے کیل
Comments